یہ لایا خون بیکس رنگ کیسا دیکھتے جائو |
سرائے ہستیء فانی کا نقشہ دیکھتے جائو |
کسی دن عالمِ ادراک کی میں سیر کرتا تھا | |||
مرے پیشِ نظر نقشہ زمینِ کربلا کا تھا | |||
کلیجہ منہ کو آتا تھا وہ نظارہ تھا حسرت ناک | |||
رواں تھی جوئے خوں آنکھوں سے ، دل تھا فرطِ غم سے چاک | |||
پڑا تھا خاک و خوں میں مہ جبیں وہ، کیا قیامت تھی | |||
رسول اللہ کو بے انتہا جس سے محبت تھی | |||
حسین ابنِ علی وہ حامیء دین پیمبر تھا | |||
جگر تھا فاطمہ کا، دل علی کا جانِ سرور | |||
وہ نور راہِ حق، وہ پرتو شمع ہدایت تھا | |||
کہ گل باغِ نبی، ریحانِ بستانِ رسالت تھا | |||
بہارِ گلشن اسلام اسکے دم سے تازہ تھی | |||
کہ ہستی اُسکی روئے ملت بیضا پہ غازہ تھِی | |||
بہارِ جاوداں چہرے پہ اسکے صدقے ہوتی تھی | |||
نسیم صبح کے جھونکوں سے یہ کہہ کہہ کر روتی تھی | |||
خبر ہے تجھکو یہ پروردہء آغوشِ احمد ہے | |||
زمینِ کربلا یہ افتخارِ دوشِ احمد ہے | |||
فلک کو تھا شرف جس سے، یہ وہ نجمِ سعادت ہے | |||
یہ وہ آئینہ ہے جس سے نہاں اک مہر وحدت ہے | |||
نہالِ گلشنِ اسلام کا تازہ ثمر ہے یہ | |||
فرشتوں کو بھی تھی جس سے عقیدت وہ بشریہ ہے | |||
علمبردارِ وحدت، حاملِ دین نبی ہے یہ | |||
ذرا کر احترام اسکا کہ فرزندِ علی ہے یہ | |||
قضا کا منتظر تھا اف! یہ کیفِ بادہءمستی | |||
بہت ہی تنگ تھا نظرونمیں اسکی جادہءہستی | |||
یہ ہے تاریخ میں پہلا علمبردارِ حرّیت | |||
یہی مظلوم و بیکس ہے، یہی سالارِ حریت | |||
نہ چھوڑا ہاتھ سے اسنے کبھی میدانِ استقلال | |||
دکھادی چھائوں میں تیغوں کی اس نے شان استدلال | |||
نظر انجام پر تھی صدقے اس شانِ فراست کے | |||
کہ پوشیدہ تھے مرگِ بیکسی میں راز ملّت کے | |||
نشاط کامرانی آج اسکی بے بسی میں ہے | |||
حیاتِ جاودانی اسکی مرگ بیکسی میں ہے | |||
جہان حریت کے آفتاب، اے نورِ یزدانی | |||
تری کرنوں سے ہر ذرہ کو ہے نازِ درخشانی | |||
نہ چھوڑی ہاتھ سے حبل المتینِ شرع کیا کہنا | |||
مبارک تجکو ہو جویائے راہِ مصطفیٰ رہنا | |||
گیا وہ تشنہ لب دنیا سے اے نہروفرات آخر | |||
شہیدِکربلا کی کرسکی کوئی نہ تو خاطر | |||
بجائے آب تھا بہر وضو خونِ رُخِ انور | |||
صلواۃ عشق کی آخر ادا اس نے تہ خنجر | |||
کسی کو اسطرح ذکرِ خدا کرتے نہیں دیکھا | |||
کبھی یوں پاس تسلیم و رضا کرتے نہیں دیکھا | |||
خزاں اسلام کے گلشن پہ اکدن آنیوالی تھی | |||
ہری کھیتی کبھی اس باغ کی مرجھانے والی تھی | |||
مگر خون حسین ابن علی نے آبرو رکھ لی | |||
زمیں پر آج شرم آیہء “لا تقنطوا” رکھ لی | |||
کچھ ایسے رحمتِ باری کے بادل جوش میں برسے | |||
بہارِ اسلام کے گلشن میں آئی پھر نئے سر سے | |||
یہ لایا خون بیکس رنگ کیسا دیکھتے جائو | |||
سرائے ہستیء فانی کا نقشہ دیکھتے جائو | |||
ٹھہر اے عبرت دنیا کہ میں دل کھولکررولوں | |||
ذرا اپنی سیہ کاری پر اپنے حال پررو لوں | |||
یکا یک غیب سے آئی ندا کیوں محوِ حیرت ہے | |||
یہی اہلِ بصیرت کیلیے راہِ صداقت ہے | |||
ہمارے چاہنے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے | |||
ہماری راہ میں مٹنا ہی بس انکا کام ہوتا ہے | |||
تڑپنا خاک و خوں میں اور ہستی کو مٹادینا | |||
اشارہ ہے کہ راہِ حق میں یوں سر بھی کٹادینا | |||
ملا تھا ایک انکو درس دربارِ رسالت سے | |||
نہ تم منہ پھیرنا اپنا کبھی راہِ ہدایت سے | |||
خدا کا شکر کرنا اور محوِ التجا رہنا | |||
دم آخر بھی یوں پابند تسلیم رضا رہنا | |||
گوارہ کرلیا سب غیرتِ اسلام کی خاطر | |||
وہ لوٹے خاک و خوں میں حرمتِ اسلام کی خاطر | |||
زمینِ کربلا کی خاک سے آواز آتی ہے | |||
تجھے اے مسلمِ خوابیدہ یہ مژدہ سناتی ہے کہ تو بھی سرفروشانِ وفا میں نام پیدا کر مٹادے خود کو لیکن عظمتِ اسلام پیدا کر | |||
جستجو میڈیا ریفرنس بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ | |||
|
No comments:
Post a Comment